محترم : شعیب شاداب
اعزاز : مست توکلی ایوارڈ
شعبہ : ادب
جناب شعیب احمد شاداب 26 سال سے زائد عرصے سے بطور بلوچی شاعر اور ادیب سرانجام دے رہے ہیں ۔ آپ کا تعلق بلوچستان کے دور افتادہ ضلع کیچ سے ہے۔ آپ بچپن ہی سے شعر و ادب سے دلی لگاؤ رکھتے ہیں اور اچھے شعری ذوق کے حامل ہیں ۔ آپ کی شاعری اور ادبی تحریریں صوبائی اور ملکی سطح کے مختلف ادبی رسائل میں شائع ہوتی رہتی ہے۔ آپ کی گیت اور غزلیں مختلف گلو کاروں نے بھی ریکارڈ کئے ہیں اور زبان زد عام بھی ہیں۔ وہ ریڈیو پاکستان اور ٹی وی کے متعدد مشاعروں میں بھی شرکت کر چکے ہیں اور آپ صوبائی اور ملکی سطح پر مشاعروں میں شرکت کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے اور کئی او بی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔
آپ پیشے کے لحاظ سے اردو کے لیکچرار ہیں اور گورنمنٹ عطاء شاد ڈگری کالج تُر بت میں درس و تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ اس سے پہلے آپ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں بھی لیکچر ا ر رہے چکے ہیں۔ جہاں آپ نے بلوچستان کے معروف شاعر وادیب عطاء شاد کی شاعری پر تحقیقی مقالہ ” کلیات عطاء شاد مع فرہنگ” لکھ کر ایم فل کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ آپ کے تحقیقی مقالہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے ریسرچ جرنل “معیار” میں ” عطا شاد سوانح ادبی خدمات” اور یونیورسٹی آف بلوچستان کیریسرچ جنرل “ہنکین” میں ” بتل و میر و ءِ بتل ءِ بتل ءِ پولکاری دانشت” کے عنوان سے بھی شائع ہو چکی ہیں۔ اس وقت ان کی بلوچی شاعری کی کتاب “کوش پوشنت زیمراں” اور تحقیقی کتاب ” عطاء شادءِ بلوچی کسما نک” کے نام منظر عام پر آچکے ہیں اور دیگر چھ کتا ہیں زیر تکمیل ہیں جو شاعری ، نثر اور تحقیق پر مشتمل ہیں۔ اس علاوہ آپ دو دریڈیو اور ٹی وی کے مختلف پروگراموں میں بطور کمپیئر تجزیہ کار اور اسکرپٹ رائٹر کے کام کرتے آرہے ہیں۔
ادب کے شعبے میں آپ کی غیر معمولی خدمات کے اعتراف میں حکومت بلوچستان کی طرف سے ایوارڈ برائےمست توکلی عطا کیا جاتا ہے۔
محترم : عارف علی
اعزاز : مست توکلی ایوارڈ
شعبہ : شاعری
جناب عارف علی (عارف عزیز) عرصہ پندرہ سال سے زائد عرصے سے بطور بلوچی ادیب اور شاعر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ آپ کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ تربت سے ہے۔ آپ شعر و شاعری اور ادب سے لگاؤر کھتے ہیں۔ اب تک آپ کی بلوچی شاعری کے دو (۲) مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔
مقامی ، صوبائی اور قومی سطح پر لاتعداد مشاعروں میں اپنا کلام پڑھنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ موصوف کئی ادبی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔
شاعری کے شعبے میں آپ کی غیر معمولی خدمات کے اعتراف میں حکومت بلوچستان کی طرف سے ایوارڈ برائےمست توکلی عطا کیا جاتا ہے۔
محترم : ڈاکٹر رحیم بخش مہر
اعزاز : مست توکلی ایوارڈ
شعبہ : تعلیم
ڈاکٹر رحیم بخش مہر شعبہ بلوچی جامعہ بلوچستان کو ئٹہ کے چیئر پرسن ہیں،آپ گزشتہ پندرہ سالوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ آپ کے ایم فل کا تھیسز “بلوچی غزل کا فنی و موضوعاتی مطالعہ” کے زیر عنوان لکھا گیا تھا۔ اسی طرح آپ نے ”بلوچی میں افسانوی ادب کے تراجم کی روایت کا تحقیقی مطالعہ” کے عنوان سے اپنے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کر 2018 میں ڈگری حاصل کی ہے۔ آپ جامعہ بلوچستان کے سینڈیکیٹ کے ممبر ہیں اور ساتھ ہی اکیڈمک کونسل، جامعہ کے سینیٹ اور دیگر بہت سی کمیٹیوں میں شامل ہیں، یعنی جامعہ کے علمی و اکیڈ مک معاملات اور دیگر امور کی بہتری، جامعہ کی ترقی و ترویج میں ان کا مثبت کردارہے۔
آپ کی سر پرستی اور زیر نگرانی میں اب تک بہت سے طلباو طالبات اپنے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کر چکے ہیں۔ اب تک آپ کی زیر نگرانی میں بلوچی زبان، ادب، کلچر اور بلوچستان کی تاریخ کے زیر عنوان پندرہ ایم فل اسکالرز اپنے تحقیقی مقالا جات لکھ کر ڈگریاں حاصل کر چکے ہیں۔ پانچ پی ایچ ڈی اسکالرز آپ کی زیر نگرانی اپنے تحقیقی کام مکمل کر کے ڈگریاں وصول کر چکی ہیں۔ آپ شعبہ سے چھپنے والے ایچ ای سی ریکگنائزڈ تحقیقی مجلہ ” ھنکین” کے مدیر ہیں۔
آپ ایک مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ محقق، نقاد اور ادیب بھی ہیں۔ ملک بھر کے ایچ ای سی ریکگنائزڈ تحقیقی مجلوں میں آپ کے بیس سے زائد تحقیقی پیپر چھپ چکی ہیں جو بلوچی زبان، ادب اور کلچر کا احاطہ کرتی ہیں۔ بلوچی زبان و ادب کے مختلف موضوعات پر اب تک آپ کی دس کتا بیں چھپ چکی ہیں۔ جن میں سے بیشتر کتا بیں ملک بھر کے جامعات اور صوبہ بھر کی کالجوں میں بطور نصابی کتب کے شامل ہیں اور پڑھائی جاتی ہیں۔
تعلیم کے شعبے میں آپ کی غیر معمولی خدمات کے اعتراف میں حکومت بلوچستان کی طرف سے ایوارڈ برائےمست توکلی عطا کیا جاتا ہے۔
محترم : ڈاکٹر عبدالراؤف رفیقی
اعزاز : عبدالعلی اخندزادہ ایوارڈ
شعبہ : ادب
ڈاکٹر عبدالرؤف رفیقی کا تعلق چمن بلوچستان سے ہے آپ نے اپنی تعلیم چمن، کو ئٹہ اور اسلام آباد میں حاصل کی۔ ایم ایس سی نباتات، ایم اے پشتو ادب، ایم اے اسلامی علوم ، ایم فل اقبالیات کی ڈگریاں حاصل کیں۔ آپ بلوچستان کے پہلے اور ابھی تک اکیلے محقق ہیں جنہوں نے اقبالیات میں ڈاکٹریٹ کا اعزاز حاصل کیا۔ “افغانستان میں اقبال شناسی کی روایت” کے موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ لکھ کر اقبال شناسی کے ایک انتہائی اہم پہلو کو اجاگر کیا۔
آپ پشتو، فارسی، عربی، اردو اور انگریزی زبانیں جانتے ہیں جبکہ پشتو، اردو، فارسی اور انگریزی زبانوں میں نظم ونثر لکھتے ہیں۔ گذشتہ چہار دہائیوں سے علم و ادب کے میدان میں نمایاں خدمات سر انجام دے رہے ہیں علوم شرقیہ سے متعلق کئی اہم موضوعات پر تحقیقات کر چکے ہیں تاریخ، تحقیق، تنقید اور شعر و ادب سے متعلق اب تک پشتو، فارسی، اردو اور انگریزی میں باون (52) کتب شائع ہو چکی ہیں۔ عالمی سطح پر با الخصوص اور ملکی سطح پر بالعموم اقبال شناسی کے حوالے سے کئی اہم منصوبے سر انجام دے چکے ہیں جن میں سے گیارہ ابھی تک شائع ہو چکے ہیں جبکہ دیگر زہر طبع اور تشنہ طبع ہیں۔ آپ کی اقبال شناسی کی فروغ اور دیگر علمی و ادبی کاوشوں کو سراہتے ہوئے حکومت پاکستان نے آپ کو “سفیر اقبال برائے ایران، ترکی، افغانستان و سنٹرل ایشیا” مقرر کیا ہے جبکہ اقبال اکادمی پاکستان اور بلوچستان آرٹس کونسل کے بورڈ آف گورنر اور انسٹیٹوٹ آف پالیسی سنڈیز کے اکیڈمک کونسل اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے نصاب کمیٹی کے ممبر بھی ہیں جبکہ حکومت بلوچستان کی جانب سے بلوچستان ایجو کیشن فاونڈیشن کے ممبر بورڈ آف ڈائر یکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ کشمیر کے ایک سکالر محمد سرفراز نے ڈاکٹر عبد الرؤف رفیقی بحیثیت اقبال شناس” کے عنوان سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے 2000 میں آپ پر ایم فل کا مقالہ بھی لکھا ہے۔
پشتو اکیڈمی بلوچستان کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں کئی علمی ادبی اداروں سے مختلف حیثیتوں سے وابستہ ہیں کئی ملکی و بین الا قوامی تحقیقی جرائد کے مدیر اور مشاورتی بورڈ کے رکن ہیں۔ آپ اقبال شناسی اور تحقیق کے حوالے سے ایک معتبر حوالہ گردانا جاتا ہے پشتو، اردو اور فارسی میں علمی ادبی اور تحقیقی خدمات کے اعتراف میں مختلف ممالک اور اداروں کی جانب سے کئی ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں جن میں کشمیر میڈل حکومت پاکستان 1999ء علامہ عبدالحی حبیبی ایوارڈ افغانستان 2012، ایکسیلنس ایوارڈ بلوچستان برائے 2009 و2016، بلوچستان صوبائی ادبی ایوارڈز برائے تحقیق، پشتو، اردو، فارسی (12 ایوارڈز) شامل ہیں۔
ادب کے شعبے میں آپ کی غیر معمولی خدمات کے اعتراف میں حکومت بلوچستان کی طرف سے ایوارڈ برائےاخند زادہ عطا کیا جاتا ہے۔
محترم : در محمد کاسی
اعزاز : عبدالعلی اخندزادہ ایوارڈ
شعبہ : ادب
درمحمدکاسی مارچ 1946 میں کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق کوئٹہ کے مشہور قبیلے کاسی سے ہے۔ کوئٹہ کے سرکاری سکولوں سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ 1968 میں گورنمنٹ ڈگری کالج کوئٹہ سے بی اے اور پھر کراچی یونیورسٹی سے 1970 میں ایم اے معاشیات میں ڈگری حاصل کی۔ تعلیم اور تحقیق سے دلچسپی نے آپ کو درس و تدریس کی جانب راغب کیا اور گورنمنٹ ڈگری کالج میں 1972 ۔ 1974 تک معاشیات کے لیکچرار رہے۔
1974میں جب کوئٹہ میں ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا تو آپ کو اس سینٹر میں سب سے پہلے مقامی پرو گرام پروڈیوسر کے طور پر منتخب کیا گیا۔ یوں آپ کو بلو چستان کی مختلف زبانوں، لینڈ سکیپ، تاریخ اور تہذیب پر تحقیقی دستاویزی فلمیں بنانے کا موقع ملا اور بہت جلد پاکستان کے صف اول کے تخلیقی پروڈیوسروں میں آپ کا شمار ہونے لگا۔ آپ نے نہ صرف پاکستان ٹیلی ویژن اکیڈمی بلکہ 1978 میں ہا لینڈ سے بھی اس فن میں تربیت حاصل کی۔ آپ نے 1974 سے 2006 تک پاکستان ٹیلی ویژن کے لئے 200 سے زاہد دستاویزی فلمیں بنائیں۔ اور اس میدان میں 8 پی ٹی وی ایوارڈ اور دو انٹر نیشنل ایوارڈز حاصل کئے۔ حکومت پاکستان نے آپ کو تمغہِ برائے حسن کارکردگی بھی عطا کیا۔
آپ پچھلے 30 برس سے پشتو اکیڈمی کوئٹہ کے ممبر ہیں تاحال مختلف انتظامی عہدوں اور کمیٹیوں کے ممبر کے طور پر احسن طریقے سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس دوران پشتو زبان و ادب و ثقافت اور تاریخ کو محفوظ کرنے اور ترقی دینے کیلئے آپ کے خد مات بے لوث اور بے مثال ہے۔ پشتو ادب کے لئے تحقیقی اور تخلیقی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ نوجوان لکھاریوں کی تربیت میں بھی پیش پیش رہے۔ بلوچستان میں بولی جانے والی زبانوں بالخصوص پشتو زبان کی ترویج و ترقی اور بلوچستان میں رہنے والی اقوام میں یکجہتی اور ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے آپ کی خدمات کے اعتراف سے انکار ممکن نہیں ہے۔
ادب کے شعبے میں آپ کی غیر معمولی خدمات کے اعتراف میں حکومت بلوچستان کی طرف سے ایوارڈ برائےعبدالعلی اخند زادہ عطا کیا جاتا ہے۔
محترم : ڈاکٹر عبدالرحمن کاکڑ
اعزاز : عبدالعلی اخندزادہ ایوارڈ
شعبہ : تعلیم
ڈاکٹر عبد الرحمن کا کٹر شعبہ پشتو، جامعہ بلوچستان کوئٹہ، میں بحثیت فیکلٹی ممبر اپنے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ 2007میں آپ نے اپنے کیریئر کا آغاز بحثیت لیکچرار کیا۔ 2019 میں ” پشتو کلاسک ادب پر تصوف کے اثرات کا جائزہ ” کے عنوان سے اپنا پی ایچ ڈی مقالہ پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر پرویز مہجور خویشکی کی نگرانی میں مکمل کیا۔ اس کے علاوہ پشتو زبان وادب، لسانیات، فولکلور اور روحانیات اسلام پر انیس تحقیقی مقالے عالمی شہرت یافتہ تحقیقی جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ آپ نے شعبہ پشتو، جامعہ بلوچستان ، کوئٹہ سے شائع ہونے والے تحقیقی مجلہ “تکتو” کے اجراء میں بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔ دس سال تک اسی مجلے کے معاون مدیر / معاون اور تین سال بحیثیت مدیر کام کیا ہے۔ اس کے علاوہ پشتو اکیڈمی کے تحقیقی جرنل “پشتو” کے نیشنل بورڈ نمبر اور پاکستان سٹڈی سینٹر ، جامعہ بلوچستان کے تحقیقی مجلے کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر ہے۔ پشتو زبان کے مختلف لہجوں پر ایچ ای سی کی طرف سے دیے گئے پراجیکٹ پر تحقیقی کام کرنے کے علاوہ آپ نے پشتو اکیڈمی یونیورسٹی آف پشاور، پشتو ڈیپارٹمنٹ یونیورسٹی آف پشاور، یونیورسٹی آف مالاکنڈ خیبر پختونخوا، پشتو اکیڈمی کوئٹہ کے کئی تحقیقی مقالات اور کتابوں کے ممتحن کے فرائض بھی سرانجام دیے ہیں۔ آپ نے پانچ نیشنل کانفرسز اور پانچ عالمی کانفرنسز میں اپنے تحقیقی مقالے پیش کیے ہیں، جن میں زیادہ تر زیور طباعت سے آراستہ ہوئے ہیں۔ تحقیقی میدان میں اچھی کار کردگی پر جامعہ بلوچستان کی طرف سے سال ۲۰۱۶ کے بہترین استاد کے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔
تدریسی فرائض منصبی کے علاوہ آپ نے ۲۰۱۳ میں شعبہ پشتو کے بورڈ آف سٹڈی کے ممبر ہے۔ آپ نے پشتو بی ایس ، ایم اے ، ایم فل اور پی ایچ ڈی کو سیمسٹر سسٹم پر شفٹ کرنے میں مدد دی اور دسمبر ۲۰۲۱ تک مذکورہ پروگرامز کے کو آرڈینیٹر بھی رہے۔ ان پروگرامز کے سلیبس کو ڈیزائین کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یونیورسٹی آف لورالائی کے بورڈ آف سٹڈی کا ممبر ہونے کے ناطے، آپ نے یونیورسٹی آف لورا لائی کے مختلف پروگرامز کے نصاب کی تشکیل میں علمی اور تکنیکی مدد کی ہے۔ آپ نے اب تک چالیس سے زائد ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی خاکوں کے ڈیزائن میں تکنیکی معاونت فراہم کی ہے۔ آپ کی نگرانی میں چار ایم فل سکالرز کا تحقیقی کام تکمیل کے مراحل میں ہے اور چار ایم فل، دو پی ایچ ڈی سکالرز تاحال ان کی سرپرستی میں اپنا تحقیقی کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تعلیم کے شعبے میں آپ کی غیر معمولی خدمات کے اعتراف میں حکومت بلوچستان کی طرف سے ایوارڈ برائےاخند زادہ عطا کیا جاتا ہے۔
محترم : خدا داد گل
اعزاز : ملک داد قلاتی ایوارڈ
شعبہ : ادب
خدا داد گل 45 سال سے زائد عرصے سے بطور براہوی شاعر اور ادیب خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ کا تعلق بلوچستان کے ضلع قلات سے ہے۔ آپ نے براہوی زبان وادب کے لیے بے شمار خدمات انجام دیں ہے۔ آپ کی تخلیقات میں سب سے زیادہ تحقیق کے موضوع پر کتا بیں ہیں جبکہ آپ نے سفرنامہ شاعری ، ڈرامے کے بھی کتا بیں شائع ہو چکی ہیں جن میں کلام نور (تحقیق) پنی آبند غا ک (تحقیق) اٹ دمٹ، براہوی ادبی تاریخ ( تحقیق ) معرفت نا پھلاک (شاعری) براہوئی ادبی سوسائٹی (ایک جائزہ) بغداد نا مسافر (سفرنامہ ایران ، عراق ) براہوی ادب افسانے کا ارتقا اچ اس اف (ڈرامہ ) ملاسی (ڈرامہ ) راہی رنگ (تحقیق) ابیات باہو (تحقیق) مُسہ پیڑی (تحقیق) حنام بندی (تحقیق) بودلا بادشاہ (مزاحیہ ڈرامہ سیریل پی ٹی وی) صد گنج (تحقیق) تذکرۃُ الاولیا، بلوچستان (تحقیق) حضرت سنان بن سلمیٰ (تحقیق) مدینہ نا مسافر (سفر نامہ مکہ معظّمہ،مدینہ)
پیشے کے لحاظ سے آپ شعبہ لسانیات کے ریٹائر ڈ اسسٹنٹ پروفیسر ہے جو گورنمنٹ ڈگری کالج، کوئٹہ میں اپنی خدمات انجام دیں چکے ہیں۔ درس و تدریس کے شعبے میں آپ کی بے پناہ خدمات بھی ہے۔ آپ کی کئی اد بی تنظیموں سے وابستگی ہے۔ جن میں وہ براہوئی ادبی سوسائٹی پاکستان کے بانی چیئر مین بھی رہے چکے ہے ۔ 1978ء سے ریڈیو پاکستان کوئٹہ اور پاکستان ٹیلی ویژن کے مختلف پروگراموں میں شرکت کرتے آرہے ہیں ۔ جن میں فیچر، ڈرامے ، خاکے ، مشاعرے، دستاویزی پروگرام اور ادبی پروگرام شامل ہیں ۔ علاوہ ازیں ریڈیو، ٹی وی اور اسٹیج کے لیے 100 سے اوپر براہوی زبان میں ڈرا مے تحریر کر چکے ہیں۔ پی ٹی وی بولان میں اینکر پرسن کے علاوہ ریڈیو پاکستان کے براہوی پروگراموں میں صدا کار / کمپیئر ، اناؤنسر اور موجود و وقت میں ریڈیو پاکستان کوئٹہ میں براہوی زبان کے دیہی و زرعی پروگرام” خلقی کچاری” کے تحریر کرنے کے ساتھ ساتھ اس پروگرام میں میر جمال کے کردار سے پہچانا جاتا ہے۔
آپ کو ان کی گراں بہا خدمات پر مختلف اعزازات / ایوارڈز / اسناد سے بھی نوازا گیا ہے جن میں پاکستان ٹیلی ویژن کی جانب سے ڈرامہ سیریل “آدینک “تحریر کرنے پر اعزازی سند، براہوی آرٹس اکیڈمی پاکستان کی جانب سے بحیثیت بہترین ڈرامہ نگار سند امتیاز، پاکستان ٹیلی ویژن کی جانب سے ڈرامہ سیریل “زندان”تحریر کرنے پرپی ٹی وی ایوارڈ، پاکستان خانہ فرہنگ ایران کوئٹہ کی جانب سے امام خمینی کے غزلیات کا منظوم ترجمہ کرنے کے حوالے سے سند، جشن مستونگ میں شاعری کے حوالے سے ایوارڈ، براہوئی ادب میں افسانے کا ارتقاء کتاب پر صوبائی ایوارڈ کشمیر کے آزادی کے پس منظر میں براہوی ٹی وی ڈرامہ “وطن نامش” (خاک وطن ) تحریر کرنے پر پی ٹی وی ایوارڈ ، “اچ اس اف” کتاب پر صوبائی ایوارڈ ادارہ ادبیات پاکستان اسلام آباد کی جانب سے کتاب “ملاسی” پر تاج محمد تا جل ایوارڈ اور پاکستان رائٹرز گلڈ بلوچستان نے گلڈ ایوارڈ شامل ہیں۔
ادب کے شعبے میں آپ کی غیر معمولی خدمات کے اعتراف میں حکومت بلوچستان کی طرف سے ایوارڈ برائے ملک دادقلاتی عطا کیا جاتا ہے۔
محترم : مرشد علی حسن
اعزاز : ملک داد قلاتی ایوارڈ
شعبہ : شاعری
سرزمین سوراب ہمیشہ مردم خیز دھرتی رہی ہے میر میر و میر اوڑی عمر میرواڑی اور بِجار کی اس شاندار دھرتی نے زندگی کے تمام شعبوں میں ایسے ایسے سپوت جنم دیے ہیں کہ جنہوں ادب، ثقافت ، سیاست تعلیم ، حکومت سازی اور دیگر شعبوں میں بیش بہا خدمات سرانجام دے کر تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ر ہے ہیں۔ اس دھرتی نے ایسے سپوت بھی جنم دیے ہیں جو بیک وقت زندگی کے متعدد سے شعبوں میں ایسے کارنامے سرانجام دیتے رہے ہیں کہ جن پر تاریخ بھی نازاں رہی ہے۔ مرشد علی حسن آزاد بھی سوراب کے انہیں ہو نہار سپوتوں میں سے ایک ہیں جو کہ ایک ہی وقت میں ادب، ثقافت موسیقی تعلیم ، سیاست سمیت زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں سرانجام دے کر دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو چکے ہیں کہ اگر انسان چاہے تو بہت کچھ کرسکتا ہے۔ 16 اپریل 1966 ء بروز ہفتہ قبائی رہنما میر یعقوب خان ریکیزئی کے گھر میں آنکھ کھولنے والے مرشد علی حسن آزاد شروع ہی سے خداداد صلاحیتوں کے مالک رہے ہیں اس دوران انہوں نے زندگی کے جس بھی شعبے میں قدم رکھا ہے اس شعبے میں خوب نام کمایا ہے۔ سکول کا زمانہ ہو یا زندگی کے دیگر ادوارا اپنے ہم عصروں سے آگے نکلنا اور کچھ کرگزرنے کا جنون ان کی طرت میں شامل رہا ہے۔ 1989 میں میٹرک کرنے کے فوراً بعد بحیثیت معلم تعلیم کے شعبے سے وابسطہ ہو کر دل و جان سے خدمت کا جو سلسلہ شروع کیا 32 سال گزرنے کے بعد بھی اسی لگن سے جاری ہے۔ اس دوران آپ کے سینکڑوں شاگر د اس کے علم و دانش سے مستفید ہوکر زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں کارنامہ سرانجام دے کر ملک وقوم کا نام روشن کر رہے ہیں تعلیم کے میدان میں آپ کی بے مثال خدمات کے اعتراف میں آپ کو متعدد اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ 1990 میں ایک ایسے وقت میں موسیقی کی دنیا میں قدم رکھا جب براہوئی موسیقی انتہائی پستی کے دور سے گزررہی تھی لیکن آپ آزاد گزشتہ اکتیس سالوں سے برا ہوئی موسیقی کے فروغ کیلئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لا رہے ہیں۔ سوراب کے اس عظیم سپوت نے 1996ء میں جب پروفیسرا نجم برا ہوئی اور امیر ادب حاجی خیر جان ریکی اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر ادب کی دنیا میں قدم رکھا تو بہت جلد سوراب کے براہوئی ادب کو دیگر علاقوں کے ادب سے ہم پلہ بنادیا۔ آپ نے براہوئی زبان، ادب و ثقافت کو معیاری بنانے اور اس کی ترقی و ترویج کیلیے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہے۔ اس کیلیے وہ تو اتر کے ساتھ ہفتہ وارہ ماہانہ اور سالانہ بنیادوں پرادبی مجالس ، بحث ومباحثے اور سیمینارز کا انعقاد کر رہے ہیں۔ جس سے علاقے کا ادب روز بروز ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔
شاعری کے شعبے میں آپ کی غیر معمولی خدمات کے اعتراف میں حکومت بلوچستان کی طرف سے ایوارڈ برائے ملک دادقلاتی عطا کیا جاتا ہے۔
محترمہ : ڈاکٹر عابدہ بلوچ
اعزاز : ملک داد قلاتی ایوارڈ
شعبہ : تعلیم
ڈاکٹر عابدہ بلوچ شعبہ برا ہوئی، جامعہ بلوچستان میں بطورا سسٹنٹ پروفیسر اپنی خدمات بخوبی سرانجام دے رہی ہیں۔ علم اور ادب کے حوالے سے آپ کی گراں قدر خدمات ہیں۔ آپ ایک ماہر تعلیم، محققہ اور مصنفہ ہیں تحقیق کے میدان میں وہ اس وقت واحد خاتون ہے جو اپنے شعبے میں خواتین میں سب پہلے اپنی پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کی بلکہ اس سے پہلے وہ براہوئی ادب میں ایم فل کی ڈگری بھی خواتین میں سب سے پہلے حاصل کر چکی ہیں۔
مزید براں اس وقت کافی تعداد میں طلباء اور طالبات تحقیق میدان میں ان کی نگرانی میں کام کر رہے ہیں۔ جو کہ براہوئی زبان و ادب کے ساتھ شعبہ برا ہوئی کا نام بھی روشن کر رہے ہیں۔
آپ نے تصنیف کے میدان میں بھی نمایاں خدمات سر انجام دے رہی ہیں ان کی ایک کتاب چھپ کر مارکیٹ میں آچکی ہے اور مزید ایک تحقیقی کاوش اشاعت کے مراحل میں ہے ۔ علاوہ ازیں آپ کی بہت ساری مضامین مختلف جرائد اور رسائل میں چھپ چکی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ براہوئی ادب اور بلوچستان کے علمی ماحول میں آپ ایک اثاثہ ہیں تو یہ غلط نہیں ہو گا ۔ کیونکہ ایک ایسے سخت اور کھٹن حالات میں یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنا ایک عورت کے لیے کتنی مشکل بات تھی ۔ لیکن ان تمام مصائب اور مشکلات کے باوجود اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا آپ کے لئے بہت بڑا اعزاز ہے ۔
آپ ایک ماہر تعلیم ہونےکے ساتھ اپنے آنے والی نسلوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی لگن رکھتی ہیں۔ بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں طلباء خاص کر طالبات کو تعلیم اور تحقیق کے زیور سے آراستہ کرنا آپ کے اولین مقاصد میں شامل ہیں ۔ جن کے مستقبل میں اچھے ثمرات مل سکتے ہیں ۔ براہوئی ادب کی بات کی جائے تو فکشن میں ڈاکٹر صاحبہ نے کی کمال مہارت ہے آپ نے براہوئی ناول اور افسانہ پر متعدد تحقیقی کام کر چکی ہیں اور آپ کی ایم فل اور پی ایچ ڈی براہوئی فکشن کے اسلوب، خیال آفرینی اور خاص کر عورت کی ادبی تاثرات کے بارے میں وسیع مطالعہ رکھتی ہیں ۔
تعلیم کے شعبے میں آپ کی غیر معمولی خدمات کے اعتراف میں حکومت بلوچستان کی طرف سے ایوارڈ برائے ملک دادقلاتی عطا کیا جاتا ہے۔
محترم : داؤد شاہ ترین
اعزاز : امیر محمد امیر ایوارڈ
شعبہ : ادب
داؤد ترین ڈائریکٹرکلچر بلوچستان فلم ساز ، سماجی کارکن، یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر لندن یو کے سے چیوننگ اسکالر، آئی سی ایف جے فیلو یو۔ایس۔اے، پی ایچ ڈی اسکالر اور ایوارڈ یافتہ فلم میکر ہیں، جوانٹر نیشل فلم فیسٹیولز میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ وہ ایک شاندار اسکالر، ایک ممتاز مفکر اور دانشور، ایک بے مثال فصیح مقرر، ممتاز فلم ساز اور باصلاحیت انسان ہیں۔ ان کا ایک شاندار تعلیمی ریکارڈ ہے۔ وہ اعلیٰ درجے پر علم و حکمت کی دولت رکھتا ہے۔ وہ معاشرے میں فن و ادب کو فروغ دینے میں گہرا حصہ لیتے رہے۔ آپ نے صوبے میں آرٹ اور کلچر کے فروغ کیلئے پالیسی سازی سے بھی گہرا تعلق رکھا ہے۔ نئی قائم ہونے والی بلوچستان آرٹس کونسل اور بلوچستان کلچر پالیسی کا سہرا واضع طور پر انہیں جاتا ہے۔
صوبے کے فن اور ثقافت کو اجاگر کرنے کی کامیابی میں آپ کی پیشہ ورانہ مہارت ، حوصلہ افزائی کی قوت اور قائدانہ خصوصیات نے اہم کر دار ادا کیا۔ وقت کی ایک مختصر مدت میں مقررہ وقت سے بہت پہلے، جو متنوع کاموں کو پورا کرنے کیلئے اس کی عطا کی اہلیت کی عکاسی کرتا ہے۔ آپ نے مجموعی روٹ لیول پر آرٹ اور کلچر کے فروغ کیلئے ایک مضبوط بنیاد کا وعدہ کیا ہے، جو بالاخر بلوچستان میں فن، ثقافت اور ادب کے میدان میں مثبت تبدیلی لائے گا۔
آپ نے نیشنل یوتھ ایواڈر ۲۰۱۰، ایچ ای سی سماء ٹی وی دستاویزی فلم ایوارڈاا ۲۰، لکس اسٹائل ایوارڈ۲۰۱۱ سینما ڈامیر انٹرنیشل فلم فیسٹیول ایوارڈ 2012 ، فلمز انٹرنیشنل ایوارڈا ۲۰۱، زیبسٹ فلم فیسٹیول ایوارڈ ۲۰۱۳، ویزاک فلم فیسٹیول ایوارڈ ۲۰۱۴ حاصل کیا ہے۔ وہ بلو چستان فلم فیسٹیول اور بلوچستان لٹریری فیسٹیول کے بانی ہیں۔ بلوچستان کی سینما انڈسٹری کو بحال کر رہے ہیں اور کئی تحقیقی جرائد اور کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔
ادب کے شعبے میں آپ کی غیر معمولی خدمات کے اعتراف میں حکومت بلوچستان کی طرف سے ایوارڈ برائے امیر محمد امیر عطا کیا جاتا ہے۔
محترم : پروفیسر احمد وقاص کاشی
اعزاز : امیر محمد امیر ایوارڈ
شعبہ : شاعری
پروفیسر احمد وقاص کاشی نوجوان شاعر، ادیب ، مقرر اور معلم ہیں۔ بنیادی طور پر آپ کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ آپ گزشتہ 16 سال سے شعر و ادب سے منسلک ہیں۔ آپ کا پہلا شعری مجموعہ “ش کار قص ” منظر عام پر آکر مقبولیت حاصل کر چکا ہے۔ آپ نے اقبالیات کے شعبے میں تعمیر نو کالج سے گولڈ میڈل لینے کے ساتھ ساتھ حافظ اقبال کا لقب بھی حاصل کیا۔
آپ کا کلام عالمی سطح کے ادبی جریدوں میں شائع ہوتارہتا ہے۔ شاعری کے ساتھ ساتھ آپ کے تحقیقی مضامین مختلف رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں ۔ آپ انجمن ادب بلوچستان کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے اپنی ادبی خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور عرصہ دراز سے بلوچستان میں عالمی سطح کے مشاعروں کا انعقاد کرواتے رہے ہیں۔ آپ اسلامیہ بوائز کالج میں بطور اسٹنٹ پروفیسر اردو خدمات سرانجام دیتے رہے ۔ اور بلوچستان کے پہلے کل پاکستان علامہ محمد اقبال تقریر ی مقابلے کے انعقاد کا سہرا بھی آپ کے سر جاتا ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ آپ بلوچستان ڈبیٹنگ سوسائٹی کے چیئر مین بھی ہیں۔
آپ کے لا تعداد شاگر د شعر و ادب کے میدان میں اپنا نام بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ نوجوانوں میں ادب کی ترویج کے لیے آپ کا کردار قابل ِ ستائش رہا ہے اس سلسلے میں یوتھ مشاعروں کا انعقاد قابل ِ تحسین عمل قرار دیا گیا ۔آپ کی 2 کتابیں (وار آف ولڈز ) اور “کہانی دو برسوں کی” زیرِ ترتیب ہیں ۔ آپ کئی بار پاکستان کے بہترین مقرر بھی رہےاور حکومت پنجاب اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستِ مبارک سے سندِ امتیاز بھی حاصل کر چکے ہیں۔ آپ نے ملکی سطح پر لاتعداد مشاعروں میں بلوچستان کی نمائندگی کی۔حکومت بلوچستان نے آپ کی خدمات کے اعتراف میں 2015 میں آپ کو یو تھ ایوارڈ سے بھی نوازا آپ کئی تنظیموں کی جانب سے ادبی ایوارڈ وصول کر چکے ہیں۔ آپ کا تعلق تسنیم ِصنم اور (عرفان الحق صائم) کے ادبی گھرانے سے ہے ۔ ان دنوں آپ وفاقی محتسب میں انویسٹی گیشن آفیسر کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
شاعری کے شعبے میں آپ کی غیر معمولی خدمات کے اعتراف میں حکومت بلوچستان کی طرف سےآپ کو ایوارڈ برائے امیر محمد امیر عطا کیا جاتا ہے۔
محترمہ : عارفہ علی
اعزاز : امیر محمد امیر ایوارڈ
شعبہ : تعلیم
پروفیسرعارفہ علی گرلز پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ کی پرنسپل ہیں۔ آپ گزشتہ 19 سالوں سے اس ادارے سے منسلک ہیں۔ جو کہ صوبہ بلوچستان کی خواتین کو تکنیکی تعلیم فراہم کرنے والا واحد خواتین ادارہ ہے۔ اس معروف ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے آپ نے اپنی سطح پر اس کا معیار بلند کرنے کی پوری کوشش کی اور آپ اپنے مقصد میں کافی حد تک کامیاب ہوئیں۔ یہ سب آپ کے خلوص اور لگن کی وجہ سے ممکن ہوا۔جیسا کہ گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ فار گرلز سریاب روڈ پورے صوبے کا واحد ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ ہے جو بلوچستان کی خواتین نوجوانوں کو فنی تعلیم فراہم کر رہا ہے اس باوقار انسٹی ٹیوٹ کی پرنسپل ہونے کے ناطے فخر کے ساتھ اپنی سطح پر پوری کوشش کی اور اللہ کے فضل سے اس ادارے کو مزید ترقی دینے میں کامیاب ہوئی۔ سب سے بڑی کوشش انسٹی ٹیوٹ کو پہچان دینی تھی جس کے لیے پوری دلجمعی سے کام کیا اور ہماری آفیشل ویب سائٹ کے ذریعے عام لوگوں کو اس کے بارے میں آگاہی دی۔
فیس بک پیج اور اس کے باوجود طلباء کے ساتھ ساتھ عملے کے اراکین کی سہولت کے لیے محنت کرتے ہوئے، بہت سے عملے کے اراکین نے ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی” کے تعاون سے اپنے متعلقہ ٹریڈز میں تربیت حاصل کی۔ ادارےکو مضبوط کرنے کے لئے آپ نے ادارے کو مناسب مقدار میں مشینری، آلات فراہم کیے جو کہ انتظامیہ کی کارکردگی پر آپ کا بھروسہ ظاہر کرتا ہے ، یہ جدید مشینری بلاشبہ خواتین نوجوانوں کو معیاری تربیت فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
“وزیراعظم ہنرمند نوجوان پروگرام کے تحت، سینکڑوں طالب علموں کوبیوٹیشن، ڈریس میکنگ اور ڈیزائننگ کی تربیت دی گئی ہے۔ یہی طالب علم مختلف محکموں میں خدمات انجام دے رہے ہیں ، کاروباری ہیں یا مختلف سرکاری/نجی شعبوں میں ملازم ہے۔انسٹی ٹیوٹ کو بی ایس یا بی ٹیک کی سطح تک بلند کرنا آپ کا وژن ہے تاکہ سریاب کے علاقے کی خواتین، جو کہ کم مراعات یافتہ ہیں اور دیگر یونیورسٹیوں تک نہیں پہنچ سکتی ، ان طالب علموں کو قریب ہی دستیاب بہترین انسٹی ٹیوٹ فراہم کریں۔
20 دسمبر2021 کوادارے میں تکنیکی تعلیم میں بہترین خدمات سر انجام دینے پرگورنمنٹ آف جرمنی اور ناروے نےمشترکہ طور پر آپ کو تعریفی ایوارڈ سے نوازا۔
تعلیم کے شعبے میں آپ کی غیر معمولی خدمات کے اعتراف میں حکومت بلوچستان کی طرف سے ایوارڈ برائے امیر محمد امیر عطا کیا جاتا ہے۔